اندلس کے زوال سے سبق - قسط 2
مسلمان حکمرانوں کی آپسی لڑائیاں
اندلس کے زوال کی ایک بڑی وجہ مسلم حکمرانوں کی باہمی چپقلش تھی۔ ایک وقت میں اندلس ایک متحد اسلامی ریاست تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں بٹ گئی، جنہیں "طوائف الملوکی" کہا جاتا ہے۔
ان حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ اور ایک دوسرے کے خلاف غیر مسلم طاقتوں سے مدد لینے نے اندلس کی بربادی کی راہ ہموار کی۔ جب مسلمان خود ہی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جائیں، تو دشمنوں کو حملہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
عیسائی ریاستوں کی بڑھتی ہوئی طاقت
جبکہ مسلمان اپنی آپسی دشمنیوں میں مصروف تھے، عیسائی ریاستیں ایک مضبوط اتحاد کی صورت میں سامنے آئیں۔ قشتالہ، ارغون، اور لیون جیسی ریاستوں نے اندلس کے خلاف مسلسل حملے کیے۔
مشہور عیسائی حکمران "فرڈینینڈ" اور "ازابیلا" نے اندلس کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی اور مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
غرناطہ کا سقوط
1492ء میں جب سلطان ابو عبداللہ نے غرناطہ کو عیسائی حکمرانوں کے حوالے کیا تو اندلس میں مسلمانوں کی آخری نشانی بھی ختم ہو گئی۔ اس معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مذہبی آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر جلد ہی اس معاہدے کی خلاف ورزی کر دی گئی، اور مسلمانوں کو یا تو عیسائیت قبول کرنے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔
سبق جو ہمیں حاصل کرنا چاہیے
اندلس کے زوال کی داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر مسلمان اپنے اصولوں سے ہٹ جائیں، آپسی لڑائیوں میں مبتلا ہو جائیں اور اپنے دشمنوں پر بھروسہ کریں، تو زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔
آج کے دور میں بھی مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے سیکھ کر اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا چاہیے، تاکہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔